باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد ، حقیقت یا افسانہ  .... خالد خان  قسط نمبر 14

باچا خان کے اس مکالمے سے انکے " پولیٹیکل کنفیوژن " کا پتہ چلتا ہے اور ان کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے۔

جولائی 4, 2023 - 18:35
 0  17
باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد ، حقیقت یا افسانہ   .... خالد خان   قسط نمبر 14
خالد خان (صاحب تحریر)

باچا خان کی جدوجہد دراصل ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھی جسکا ہدف  دہلی میں بدیسی سرکار کی دیسی سرکار میں تبدیلی تھی۔ باچا خان نے غیر منقسم ہندوستان کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور نہ ہی ان کے زہن میں خود مختار یا آزاد پختونستان کا کوئی مبہم سا خاکہ بھی موجود تھا۔ اسی طرح باچا خان کے منشور میں کوئی اقتصادی اور ریاستی پالیسی بھی نہیں تھی بلکہ خدائی خدمتگار تحریک کا سرے سے کوئی منشور تھا ہی نہیں۔ چونکہ باچا خان کا سیاسی دماغ میاں احمد شاہ اور عبدالاکبر خان اکبر تھے جو بالشویک سوچ کے حامل اہل فکر و قلم تھے لہذا باچا خان کے خلاف انگریز سرکار کے ایما پر پہلا پروپیگنڈہ کمیونزم کا ہوا اور باچا خان پر یہی سوالات عام عوام کی جانب سے داغے جانے لگے کہ خدائی خدمتگار تحریک ایک کمیونسٹ سیاسی جدوجہد ہے ۔ ایسے ہی ایک موقع کا بیان باچا خان اپنی خودنوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 340 اور 341 پر یوں کرتے ہیں۔
 
" انگریز ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ یہ بالشویک ہیں یہ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور تمام خوانین،  مولویوں اور ملکوں سے کہتے تھے کہ تمہارا سب کچھ چھین کر غریب عوام میں تقسیم کر دینگے۔ چنانچہ دوآبہ میں منعقدہ ایک جلسے میں مجھ سے چند خوانین اور ملکوں نے یہی سوال کیا کہ آپ ہمارا سب کچھ چھین کر غریب عوام کو دینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ہم خدائی خدمت گار ہیں جس طرح غریبوں کی ہم خدمت کرتے ہیں تمہاری بھی کرتے ہیں۔ ہمارا ملک اتنا مالا مال ہے اور اس میں اتنا کچھ ہے کہ اگر ہم آزاد ہو کر اس ملک کے مالک بنے اور ہم ہمت کریں تو اتنی بنجر زمینیں ہیں کہ ان کو آباد کرکے ہر ایک غریب خان بن سکتا ہے۔ ہم غریبوں کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ان ننگے بھوکوں کو کپڑے اور کھانا مل جائے تو تمہیں کیا نقصان ہے۔ خوشحال لوگوں کو مفلس اور قلاش بنانا نہیں چاہتے۔ ہم تمہاری زمینیں اور جائیداد تم سے لیکر کسی دوسرے کو دینا نہیں چاہتے۔ جب انگریز ملک سے چلے جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے غریب مزدور موٹروں میں پھریں گے اور بنگلوں میں رہینگے۔ ہم یہ سب کچھ جو کر رہے ہیں اپنی ذات کے لیے نہیں کرتے تمہارے لیئے اور اپنی قوم و ملک کے لیئے کر رہے ہیں۔ انگریزوں کے مزدور پیشہ لوگ آزادی کی برکت سے اپنے ملک میں موٹروں میں پھرتے ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارا بھی ہوگا۔جب ہم صفائی کی مہم پر جھاڑو ہاتھ میں لیکر گاوں گاوں پھرنے لگے تو انگریزوں کے ایجنٹوں نے خوانین سے کہنا شروع کیا کہ ان کے اس جھاڑو کا مطلب یہ ہے کہ تم پر جھاڑو پھیرے اور یہ ملک تم سے پاک ہوجائے۔"

باچا خان کے اس مکالمے سے انکے " پولیٹیکل کنفیوژن " کا پتہ چلتا ہے اور ان کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے۔ نہ ہی وہ طبقاتی سیاست کی باریکیوں سے واقف نظر آتے ہیں اور نہ ہی قومی سوال پر ان کا زہن واضح ہے۔ ان کے خیال میں انگریز کا ہندوستان سے چلے جانا ہی برصغیر کے تقدیر کو بہشتی بنا دیگا۔ 

انگریز سرکار نے متعدد دفعہ کوشش کی کہ باچا خان کے ساتھ صوبہ سرحد کے بارے میں کوئی تصفیہ کرے اور ہندوستان بھر سے زیادہ آئینی اصلاحات صوبہ سرحد کے لیئے منظور کرنے کی بات کی لیکن باچا خان کانگرس کو چھوڑنے اور انگریز سرکار سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مقامی انگریز انتظامیہ ، گورنر صوبہ سرحد اور وائسرائے ہند اس نتیجے پر پہنچے کہ باچا خان ایک مغرور شخص ہے اور انگریزوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ برطانوی سیکریٹری خارجہ اور داخلہ نے بھی اس ضمن میں بھرپور کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ اس دوران گول میز کانفرنس لندن کا تاریخی موقع آن پہنچا اور انگریز سرکار نے ڈاکٹر خان صاحب اور میاں احمد شاہ کے ذریعے باچا خان کو ملاقات کے لیئے راضی کرنے کی کوششیں کیں مگر باچا خان اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ بالآخر انگریز سرکار نے مہاتما گاندھی کے ذریعے اس ملاقات پر باچا خان کو آمادہ کیا۔ باچا خان اس ملاقات کا ذکر اپنی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 251 پر یوں کرتے ہیں۔

" مردان سے میں گورنر کی ملاقات کے لیئے نتھیا گلی گیا۔ گورنر صاحب نے کہا کہ ہم تمہیں صوبہ سرحد کی جانب سے لندن گول میز کانفرنس میں بھیجتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ خدائی خدمتگاروں اور کانگرس کا صرف ایک نمائندہ ہوگا اور وہ مہاتما گاندھی ہوگا۔ گورنر صاحب اس بات پر کچھ حیران ہوا مگر کچھ نہ بولا۔ ملاقات ختم ہوگئی۔"

گورنر کا حیران ہونا حیران کن نہیں تھا۔ باچا خان نے انتہائی آسانی کے ساتھ ایک بہت بڑا موقع ضائع کیا۔ انگریز گورنر کی اس پیشکش کو تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انگریز سامراج کی سیاسی عدالت میں ہندوستان کی آزادی کا جو مقدمہ دائر تھا اس میں متحدہ ہندوستان اور ہندوؤں کی طرف سے فریق مہاتما گاندھی اور کانگرس تھی۔ محمد علی جناح منقسم ہندوستان اور مسلمانوں کی پیروی کر رہے تھے۔ اس مقدمے کے دو فریق اور بھی تھے۔ ایک افغانستان اور دوسرا باچا خان۔ افغانستان نے اس مقدمے سے لاتعلقی بھرتی اور پیروی نہیں کی جبکہ باچا خان مہاتما گاندھی اور کانگرس کے ساتھ وغیرہ وغیرہ میں شامل تھے جبکہ انگریز انہیں فریق بننے کی دعوت دے رہے تھے۔ باچا خان کو چاہیئے تھا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں پشتونوں کے لیئے الگ آزاد وطن کا مطالبہ کرتے کیونکہ صوبہ سرحد ، آزاد پشتون قبائل اور جنوبی پشتونخوا ہندوستان کا حصہ نہیں تھے۔ انگریز کا قبضہ ہندوستان پر تھا اور وہ ہندوستان ہندوستان کے باسیوں کو حوالے کرکے چلا جاتا۔ ہندوں اور مسلمانوں یا بالفاظ دیگر مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح ہندوستان کے تقسیم کے بارے میں انگریز سرکار سے مل کر جو بھی فیصلہ کرتے ہشتونوں اور باچا خان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پشتونوں کا علاقہ ہندوستان کے ساتھ انگریز نے افغانستان کے ساتھ معاہدہ کرکے صد سالہ لیز ( اجارہ/ رہن/ زبردستی ) شامل کیا ہوا تھا۔ اصولا تو افغانستان کو انگریز کے ساتھ پشتون علاقے کا مسلہ اٹھانا چاہیئے تھا اور انگریز کے ساتھ طے کرنا چاہیئے تھا کہ ہندوستان سے جاتے ہوئے وہ افغانستان کو اپنا علاقہ واپس کرتے۔ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف بسنے والے اپنے پشتون بھائیوں کے ساتھ دو مرتبہ تاریخی بےوفائی اور غداری کی۔ پہلی مرتبہ اپنے سروں کے خیر کے لیے اپنے پشتون بھائیوں کے سروں کا سودا کرکے انگریز کو حوالے کیا۔ دوسری مرتبہ انگریز  سے ہندوستان چھوڑنے کے سمے اپنے علاقے کے واپسی کا مطالبہ نہیں کیا اور اپنے پشتون خون کو پاکستان کے قبضے میں جانے دیا۔ پہلی بےوفائی کے لیے تو افغانستان کو معاف کیا جاسکتا ہے کہ انگریز سرکار کے سامنے ٹہرنے کی استطاعت نہیں تھی مگر دوسری بار کی بےوفائی کے لیے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہندوستان کے تقسیم کے وقت انگریز انتہائی کمزور حالت میں تھا جبکہ افغانستان کے پاس منظم فوج ، ائیر فورس اور ہر لحاظ سے انگریز کے مقابلے کی صلاحیت موجود تھی۔ افغانستان کبھی بھی اپنے ماتھے سے اس داغ کو نہیں مٹا سکے گا اور یہی وہ نفسیاتی اور تاریخی وجہ ہے کہ پشتونوں کی وحدت کو تاحال ممکن نہیں بنا سکی ہے۔ انگریز بجائے صوبہ سرحد کو افغانستان کے حوالے کرنے کے ایک آزاد پشتون ریاست کے صورت میں قائم کرنے کے لیے تیار نظر آرہا تھا جو روس کے خلاف اسکے سہہ جہتی بفر زونز قائم کرنے کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ آزاد  پشتون روس کے خلاف انگریز سامراج کا اسرائیل ہوتا جسکا خواب وہ آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ انگریز سرکار باچا خان کو ہندوستان کے تقسیم میں تیسرا فریق بنا کر گول میز کانفرنس لندن میں بھٹانا چاہتے تھے تاکہ وہ آزاد پشتونستان کا مقدمہ پیش کرے۔ باچا خان نے بلا شبہ بہت بڑے موقع کو بہت آسانی کے ساتھ ضائع کیا۔  ( جاری ہے )

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow

Editor Hello its Today's Pakistan