باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد، حقیقت یا افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر خالد خان   قسط نمبر (11)

کرپس مشن کی ناکامی کے بعد ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی۔ بمبئی میں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی منظوری دے دی گئی۔

جون 28, 2023 - 15:18
 0  15
باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد، حقیقت یا افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر  خالد خان   قسط نمبر (11)
خالد خان (صاحب تحریر)

کرپس مشن کی ناکامی کے بعد ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع ہوئی۔ بمبئی میں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی منظوری دے دی گئی۔ مہاتما گاندھی سمیت کانگرس کمیٹی کے تمام ارکان گرفتار ہوئے اور ہندوستان بھر میں پرتشدد کاروائیوں کا آغاز ہوا۔صوبہ سرحد میں کانگرس کی اتحادی جماعت خدائی خدمتگار تحریک نے بھی اپنا اجلاس منعقد کرکے کانگرس کی پرتشدد جدوجہد کی توثیق کر دی۔ گاندھی جی جن کی پالیسی عدم تشدد کی تھی، کرپس کمیشن کی ناکامی کے بعد انہوں نے اپنے کارکنوں کو تشدد کی اجازت دی دی اور یہی تقاضا خدائی خدمتگار تحریک سے بھی کیا۔ اگر چہ باچا خان کا دعوی تھا کہ عدم تشدد کسی کی ایما پر نہیں ہے بلکہ یہ ان کی ایمان کا حصہ ہے جسکا اظہار انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 398 پر " کانگرس کی بےوفائی " کے عنوان کے تحت یوں کیا ہے۔

"جب تقسم کے وقت ہندوستان میں فسادات ہوئے تو یہاں ( صوبہ سرحد ) میں خدائی خدمتگاروں نے جان پر کھیل کر ہندوں اور سکھوں کی حفاظت کی اور اپنے ان ہندوں اور سکھ بھائیوں کو بچانے کے لیے بہت تکالیف برداشت کیں۔ جہاں بھی خدائی خدمتگار تھے وہاں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور یہ لوگ محفوظ رہے اور ہم نے انکے مال و جان کی حفاظت کی۔ دوسری طرف ملاحظہ کریں کہ کانگرس نے ہندوستان میں ہندوں اور مسلمانوں میں کتنی نفرت پیدا کی ہے اور کتنا تشدد کیا ہے۔ درحقیقت عدم تشدد کانگرس کی پالیسی تھی اور ہمارا عقیدہ تھا۔"

باچا خان ببانگ دہل دو حقائق تسلیم کرتے ہیں جنہیں ہم بھی حق اور سچ مانتے ہیں۔ ایک وہ کانگرس پر سنگین تشدد ، فسادات اور خونریزی کا الزام لگاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ وہ عدم تشدد کو کانگرس کی پالیسی قرار دیتے ہیں جس سے ہم بھی متفق ہیں۔ عدم تشدد کانگرس کی پالیسی تھی اور وقت اور حالات کے مطابق انہوں نے یہ پالیسی ترک کر دی۔ پالیسیز ہمیشہ قومی مفاد میں بنائی جاتی ہیں اور ہمیشہ لچکدار بھی ہوتی ہیں۔ اسی روانی میں باچا خان یہ بھی فرماتے ہیں کہ " درحقیقت عدم تشدد کانگرس کی پالیسی اور ہمارا عقیدہ تھا۔"

تو کیا عقیدہ بدلا جاسکتا ہے؟

تو کیا عقیدہ ترک کیا جاسکتا ہے؟

 اور کیا عقیدے پر اتحادیوں کی خاطر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے؟ 

باچا خان کے مطابق اگر تشدد پشتونوں کے لیئے تباہ کن تھی تو یکایک مفید کیسے ہوگئی؟

خدائی خدمتگار تحریک کے اجلاس میں کانگرس کے کہنے پر پرتشدد کاروائیوں کی منظوری دی دی گئی اور عدالتوں پر حملے شروع کر دیئے گئے۔ باچا خان اپنی خودنوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 357 اور 358 پر " عدالتوں پر دھاوے " کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
 
" پشاور ، مردان ، کوہاٹ اور بنوں کے اضلاع میں خدائی خدمتگاروں نے عدالتوں پر دھاوے بولنے شروع کر دیئے۔ پہلے پہل خدائی خدمتگاروں کو گرفتار کرنے کی بجائے ان کو نہایت بےدردی سے مارا پیٹا جاتا تھا۔ یہ ڈنڈا ماری صرف پولیس نہیں کرتی تھی بلکہ انکے ساتھ خوانین اور اربابوں کے ڈنڈے مار بھی ہوتے تھے۔کچھ مہمندوں کو خدائی خدمتگاروں کو مارنے اور حکومت کی مدد کے لیے بلایا گیا تھا۔ مردان میں بھی یہی حال تھا مگر وہاں خوانین کے ڈنڈے مار نہیں تھے۔ سوات کے میاں گل باچا صاحب نے بہت سے ڈنڈے مار حکومت کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔یہ ظالم اتنی بےدردی سے لوگوں کو پیٹتے تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ کسی کا سر پیر نہیں دیکھتے تھے بلکہ اکثر خدائی خدمتگاروں کو بیلوں کی طرح تاک کر مارتے تھے۔  اکثر خدائی خدمتگار زخمی ہوجاتے تھے، کسی کا سر اور کسی کا ہاتھ ٹوٹ جاتا تھا اور کئی ایک جان سے چلے جاتے تھے۔ جب خدائی خدمتگاروں نے پشاور کے ڈپٹی کمشنر سکندر مرزا کے دفتر پر دھاوا بولا تو پولیس اور ڈنڈا ماروں کے علاوہ خود سکندر مرزا ڈنڈا لے کر خدائی خدمتگاروں کو مارنے آیا۔ اس کا ڈنڈا سید اکبر نامی خدائی خدمتگار کے دل پر لگا اور وہ موقع پر شہید ہوگیا۔ انگریزوں نے کبھی خود ہمیں ڈنڈوں سے نہیں مارا۔ یہ ہمارا مسلمان بھائی تھا جس نے اپنے ہاتھ سے ہم پر ڈنڈے آزمائے اور ہمیں زدو کوب کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ جب خدائی خدمتگار پولیس اور ایڈیشنل پولیس کا گھیرا توڑ کر کسی انگریز کی عدالت پہنچتے تو اسے کہتے یہ ہمارا ملک ہے اور تو یہاں سات ہزار میل مسافت طے کرکے آیا ہے۔ یہ ملک ہمارے حوالے کر اور یہاں سے چلتا بن۔ اگر کوئی دیسی افسر ہوتا تو اس سے کہتے قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ تم انگریزوں کی نوکری چھوڑ دو۔ ان حملوں کا کمانڈر گوجر گڑھی کا شاکر اللہ باچا تھا۔ وہ یہ حملے اتنی ہوشیاری اور منظم طریقے سے کرتا کہ انگریز بھی اس کی پھرتی اور ہوشیاری کے قائل ہوگئے۔ مردان میں ان حملوں کے کمانڈر سالار منیر خان اور پھر عبدالعزیز خان تھا۔ انہوں نے بھی نہایت بہادری سے یہ حملے کیئے تھے۔ یہ حملے بڑے پیمانے پر پشاور اور مردان میں کیئے گئے۔ ہر کچہری اور عدالت کے سامنے پولیس کا زبردست پہرہ ہوتا تھا۔ خدائی خدمتگار آتے، نعرہ تکبیر اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ، فخر افغان زندہ باد کہتے اور پولیس کا گھیرا توڑ کر عدالت میں داخل ہوجاتے۔ اس اثناء میں پولیس اور اسکے مددگار مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیتے مگر وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کا ظلم و ستم برداشت کرتے۔"

عدم تشدد جو باچا خان کا عقیدہ تھا وہ کبھی بھی اس عقیدے پر قائم نہیں رہے تھے اور متعدد بار اس عقیدے سے روگردانی کی تھی جسکے لیئے جواز بھی ڈھونڈے گئے تھے۔ ایسا ہی ایک خونریز واقعہ گوجر گڑھی مردان میں بھی رونما ہوا تھا جس نے " ٹکر" کے سانحے کو جنم دیا۔ باچا خان اپنی خودنوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد کے " صفحہ نمبر 205 پر گوجڑ گڑھی کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں۔

"27 مئی کو گوجر گڑھی میں جلسہ تھا ۔مردان سے کپتان مرفی معہ پولیس کے آیا۔ یہ انتہائی سفاک پولیس افسر تھا۔اس کے پاس گوجروں کی طرح ایک بڑا ڈنڈا تھا۔ جس سے گوجر بھینس ہانکتے ہیں۔اس نے آتے ہی جلسہ کے اندر گھس کر پرامن لوگوں کو اس ڈنڈے سے بےدریغ مارنا شروع کیا۔ ہم خدائی خدمتگار عدم تشدد کے اصول کے پابند ہیں مگر جلسے میں کچھ مساجد کے طلباء بھی تھے جن کے پاس کلہاڑیاں تھیں۔( یہ طلباء اکثر کلہاڑیاں پاس رکھتے تھے ) وہ حیران رہ گئے کہ ایک آدمی کس طرح لوگوں کو مار پیٹ رہا ہے اور کوئی اسے کچھ نہیں کہتا۔ ان طلباء نے اس انگریز پر کلہاڑی سے وار کیا جس سے وہ زمین پر گرا۔ ایک عورت نے جو جلسے میں لوگوں کو پانی پلا رہی تھی اس نے اپنا گڑھا انگریز کے سر پر دے مارا۔ کپتان مرفی مرگیا۔ پولیس نے " ھے " ( Hey ) جو مردان کا اسسٹنٹ کمشنر تھا کو اطلاع دی۔وہ معہ فوج کے آیا۔ لوگوں کو پتہ تھا کہ فوج آرہی ہے مگر انہوں نے جلسہ جاری رکھا۔ عین اس وقت بارش اور آندھی شروع ہوگئی۔ اس لیئے جلسہ منتشر ہوگیا ورنہ اگر فوج جلسہ گاہ پہنچ جاتی تو بڑی سخت خونریزی ہوتی۔ دوسرے دن اس انگریز کے قتل کا بدلہ لینے کے لیئے فوج نے " ٹکر " پر حملہ کیا۔ گاوں کا محاصرہ کر لیا اور مرد و زن ، جوان، بچے اور بوڑھوں پر بےدریغ فائرنگ کرکے ان کو شہید کیا "

باچا خان کے ناقدین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ عدم تشدد کی پالیسی باچا خان نے انگریز سرکار کے مفاد میں تشکیل دی تھی۔ اس حوالے سے وہ دو نکات بڑے زور و شور سے اٹھاتے ہیں۔ ان کا ایک نکتہ یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی اور جب جب بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں باچا خان ذاتی طور پر موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل قصہ خوانی کی خونریزی کے وقت تو باچا خان خود پابند سلاسل تھے اور ان کی رہائی کے لیئے احتجاج ہورہا تھا جبکہ قیام پاکستان کے بعد بابڑہ کے قتل عام کے موقع پر بھی باچا خان جیل میں تھے اور ان کی اسیری کے خلاف اور آزادی کے حق میں پرامن احتجاجی مظاہرہ منعقد ہوا تھا جس پر خان عبدالقیوم خان کے حکم پر اندھا دھند فائرنگ ہوئی تھی۔ بہرحال متعدد ایسے خونریز واقعات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ باچا خان جیل میں نہیں تھے مگر ان مواقع پر موجود بھی نہیں تھے۔ باچا خان کے ناقدین کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پشتون فطرتا جنگجو قوم ہے اور اگر یہ تشدد پر اتر آتے تو انگریز سامراج کو لینے کے دینے پڑتے اور برصغیر کی آزادی نہ صرف یہ کہ پشتونوں کے ہاتھوں ممکن ہوتی بلکہ اقتدار بھی پشتونوں ہی کو منتقل ہوتا جو مغلوں نے پشتونوں سے چھینا تھا۔ باچا خان کے عدم تشدد کی پالیسی پر ہماری بحث چونکہ ان کی اپنی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " تک محدود ہے اور ہم دیگر کتب اور ذرائع سے حوالے نہیں لے رہے ہیں اس لیئے نتیجہ اخذ کرنا ہم قائرین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ باچا خان کو جب جب بھی اپنی بقا کے لیئے تشدد کی ضرورت پڑی انہوں نے دریغ نہیں کیا۔ باچا خان اپنی خودنوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 368 پر " زلمے پشتون " کے عنوان سے خود اسکا ثبوت دیتے ہیں۔
 
" جب پشتونوں نے میجر خورشید کے اس ارادے کو بھانپ لیا تو انہوں نے خدائی خدمتگاروں کی حفاظت کے لیے ایک نئی تنظیم غنی ( خان عبدالغنی خان، فرزند باچا خان ) کی سربراہی میں تشکیل دی جسکا نام "زلمے پشتون" یعنی انجمن نوجوانان پشتون تھا۔ اس جماعت میں وہ نوجوان شامل ہوئے جنہوں نے عدم تشدد کو بطور عقیدہ نہیں اپنایا تھا۔ انہوں نے اسی غرض سے یہ جماعت بنائی تھی کہ خدائی خدمتگار تو تشدد نہیں کرتے کیونکہ وہ عدم تشدد کے عقیدہ پر قائم ہیں مگر اب انکے خلاف تشدد کی سازش ہورہی ہے تو انکی حفاظت کی جائے۔ زلمے پشتون کے مقابلے میں مسلم لیگیوں نے ایک جماعت غازی پشتون کے نام سے بنائی مگر پشتون قوم  خدائی خدمتگاروں کے ساتھ تھی اور مسلم لیگ میں جو خان اور انگریزوں کے پھٹو تھے ان کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ قوم تو زلمے پشتون کے ساتھ ہے اور اگر زلمے پشتون اور غازی پشتون کے درمیان جنگ ہوئی تو مسلم لیگیوں میں ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔ اس لیئے میجر خورشید کی وہ سکیم ناکام ہوگئی۔ میں بھی بہت کوشش کرتا کہ خانہ جنگی نہ ہو اور خدائی خدمتگاروں کو صبر کی تلقین کرتا۔ غازی پشتون کے آدمی ہمارے کیمپوں میں آتے اور ہمیں برا بھلا کہتے۔ گالیاں دیتے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ خدائی خدمتگار تشدد نہیں کرینگے مگر ہمارے مرکز کے ارد گرد علاقے کے بارسوخ لوگوں نے ان سے کہہ دیا کہ اگر تم دوبارہ یہاں نظر آئے تو تم میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں جائے گا۔ اس طرح انہوں نے ہمیں اس لعنت سے نجات دلا دی۔ غازی پشتون کا سربراہ ہمارے گاوں کے خان بہادر عمر خان کا بیٹا تھا۔"

بحث کو سمیٹتے ہوئے باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 345  سے ایک اور مثال دی جاتی ہے تاکہ باچا خان کے عدم تشدد کی پالیسی کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
 
" دسمبر 1941 میں ہشتنگر کے ایک گاؤں شیرپاو میں ہمارا کیمپ تھا۔ یہ کیمپ سڑک کے کنارے مشرق کی جانب تھا۔ ہشتنگر کے لوگوں نے کیمپ کا انتظام کیا تھا۔ جس جگہ ہمارا کیمپ تھا اسکے ارد گرد فصل کھڑی تھی اور بڑے بڑے کھڈ تھے۔ ہمارے علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر ایک انگریز تھا۔ اس کا نام میجر کول تھا۔ وہ ہماری تحریک کا سخت مخالف تھا۔ ویسے تو ہر انگریز ہماری تحریک کا دشمن تھا مگر یہ حد ہی سے بڑھ گیا تھا۔ یہ تو ہماری جان کے درپے تھا ۔ جب اس کو ہماری کیمپ کی اطلاع ملی تو ہمارے کیمپ کے قریب دو بھائی تھے۔ ان کو بلایا۔ ایک کا نام میاں عبدالقیوم اور دوسرے کا نام میاں عبدالحیکم تھا۔ یہ دونوں کاکا خیل میاں تھے جو انتہائی ظالم ، سنگدل ڈاکو، رہزن اور اجرتی قاتل تھے اور اغوا کار بھی تھے۔ میجر کول نے ان کو بلایا اور ان سے کہا کہ تم باچا خان کو ختم کردو میں تم کو عزت کے علاوہ انعام بھی دونگا۔ یہ دونوں خود کیا کم ظالم تھے کہ اب ان کو انگریز کی سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ ایک تو کریلا اور دوسرا نیم چڑھا۔ وہ میرے قتل پر کمربستہ ہوگئے اور رات کو تین بار میرے قتل کے ارادے سے کیمپ آئے مگر خدائی خدمتگاروں کا پہرہ بہت مضبوط تھا اور میری موت ابھی نہیں لکھی تھی اس لیے ان کا بس نہ چلا اور ان سفاکوں اور انگریزوں کی مشترکہ سکیم ناکام رہی۔ خدا کی شان ان کے اس ارادے کی عمرزئی کے زیداللہ خان کو خبر ہوئی۔ اس نے ان دونوں بھائیوں کو دن دھاڑے سڑک پر گولی مار کر ہلاک کردیا اور خود مفرور ہوگیا۔ اس طرح خدا کی مخلوق کو ان ظالموں سے نجات ملی۔"

پشتونوں نے تشدد اور عدم تشدد کے ان پالیسیز پر چلتے ہوئے کیا کھویا اور کیا پایا، یہ ایک دکھ بری داستان ہے۔        ( جاری ہے )

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow

Editor Hello its Today's Pakistan