باچاخان کا فلسفہ عدم تشدد، حقیقت یا افسانہ ۔۔۔۔ تحریر خالد خان ۔۔۔ قسط نمبر( 10)

باچاخان کا فلسفہ عدم تشدد

جون 25, 2023 - 19:24
 0  8
باچاخان کا فلسفہ عدم تشدد، حقیقت یا افسانہ ۔۔۔۔ تحریر خالد خان ۔۔۔ قسط نمبر( 10)
خالد خان (صاحب تحریر)

باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد، حقیقت یا افسانہ 

خالد خان 

قسط نمبر ( 10 )

جیسے کہ گزشتہ اقساط میں ذکر ہوا تھا کہ باچا خان کی عدم تشدد کی پالیسی دو جہتوں پر مشتمل تھی۔ باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے عمیق مطالعے سے راقم الحروف دو نتائج اخذ کرتا ہے۔ باچا خان پشتونوں کے درمیان جاری تشدد اور غلط رسوم و رواج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ پشتونوں میں اتحاد، اتفاق، یگانگت اور مہرومحبت کے داعی تھے۔ وہ پشتونوں میں حریت کے جذبے کو بیدار کرنا چاہتے تھے اور انہیں برصغیر کی آزادی کے لیئے تیار کر رہے تھے۔ باچا خان کا ذہن اس پر بالکل واضح تھا کہ اس عظیم مقصد کے لیے پشتونوں کو آپس میں ایک دوسرے پر تشدد کو ترک کرنا ہوگا اور آپسی کے اخوت کو بڑھانا ہوگا۔ اتفاق و اتحاد کے ساتھ انہیں جدید تعلیم ، زراعت اور تجارت و کاروبار کی طرف متوجہ ہونا پڑیگا اور دنیا کے مہذب اقوام کے برابری کی سطح پر آتے ہوئے اپنے ملک کو آزاد کروانا ہوگا۔ عدم تشدد کی حکمت عملی کی دوسری جہت انگریز کے مقابلے کا استطاعت نہ رکھنا تھا اور اگر پشتون انگریز کے ساتھ پرتشدد کاروائیوں میں الجھ جاتے تو اپنا بےتحاشا نقصان کر بیٹھتے۔ اس تجزیئے کے ثبوت میں باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " سے ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا جاتا ہے جو صفحہ نمبر 80 پر درج ہے۔

" مجھے ایک آدمی نے خبر دی کہ ملک سلطان محمد خان معہ اپنے ساتھیوں کے سڑک پر مورچہ زن ہے تاکہ انگریز فوج کا راستہ روک لے۔ اسکا کہنا تھا کہ انگریزوں سے ہماری جان نہیں چھوٹتی تو ان سے مقابلہ کرتے ہیں۔ موت سے تو انکار نہیں پھر کیوں نہ دل کی بھڑاس نکالی جائے۔ میں دوڑ کر انکے پاس گیا۔ میں نے دیکھا ملک صاحب سنگین لیئے کھڑے ہیں اور انکے نوکر مورچے میں بیھٹے ہیں۔ ملک صاحب ان کی ڈھارس بندوا رہے تھے۔ میں نے دور سے انکو آواز دی کہ ملک صاحب کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا آج انگریزوں کو بتاتا ہوں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں میں نے اس سے پوچھا آپ کے پاس کتنی بندوقیں اور کارتوس ہیں۔ ملک صاحب بولا پانچ بندوقیں اور بیس پچیس کارتوس ہیں۔ میں نے کہا کہ اتنے کارتوس تو انگریزوں کی ایک بندوق میں ہوتے ہیں تم کس طرح بیس کارتوس اور پانچ بندوقوں سے انگریز کا مقابلہ کروگے؟ یہ سن کر تھوڑی دیر تک تو خاموش رہا پھر نوکروں سے کہا کہ انگریز سے مقابلہ مشکل ہے۔ میری گھوڑی پر زین ڈالو اور راتوں رات سوار ہوکر آزاد قبائلی علاقے کی طرف چلے گئے۔ اس طرح ہمارے گاوں کے بہت سے لوگوں نے روپوشی اختیار کر لی تھی۔"

باچا خان پشتونوں کو انگریزوں کے خلاف تشدد سے اس لیئے روک رہے تھے کہ پشتون جنگجو اور بہادر ضرور تھے اور جہادی جذبے سے بھی سرشار تھے مگر انگریز کے خلاف جنگ کے لیئے انکے پاس وہ مطلوبہ جنگی وسائل نہیں تھے جس سے انگریز کو یقینی شکست دی جاسکتی تھی۔ باچا خان جنگ اور جہاد کو مذہب اور حقیقت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ دشمن کے مقابلے میں عددی تناسب اور جدید عسکری سازوسامان کے بغیر جنگ میں کھودنے کو حماقت تصور کرتے تھے۔ جب باچا خان خود تشدد کے حق میں تھے تو تب بھی وہ اپنے اس موقف پر قائم تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کی دعوت پر جب انہوں نے ملاقات میں رسمی طور پر عسکری جدوجہد کا فیصلہ کیا تو شیخ الہند اور مولانا عبیداللہ سندھی کا خیال تھا کہ سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید بریلوی کے بالا کوٹ میں باقی ماندہ زندہ بچ جانے والے مجاہدین کو جنہوں نے بونیر میں مرکز قائم کیا ہوا تھا استعمال کیا جائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی اس فیصلے کے حمایتی تھے لیکن باچا خان نے اس کی مخالفت کی اور جن دلائل پر اسے مسترد کردیا اسے شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی تسلیم کیا۔ باچا خان اپنی خودنوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد کے " صفحہ نمبر 54 پر اس کا ذکر یوں کرتے ہیں۔

 " بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں دو مراکز بنانے چاہیئں۔ایک ہندوستان میں اور دوسرا ہندوستان سے باہر آزاد قبائل میں جہاں کے لوگ انگریزوں کے تنخواہ دار نہ ہوں اور وہ قوم بھی مجاہد ہو۔ وہاں ہندوستان کی آزادی کے لیئے ایک فوج تیار کی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مرکز بونیر میں بنایا جائے جہاں ہندوستان کے مجاہدین پہلے ہی قیام پزیر ہیں۔ یہ وہ مجاہدین تھے جو سید احمد بریلوی صاحب اور شاہ اسماعیل شہید صاحب کی بالا کوٹ میں شہادت کے بعد زندہ بچ گئے تھے اور ہزارہ سے بونیر چلے گئے تھے اور وہاں " لیستانہ " نامی گاوں میں مقیم ہوگئے تھے۔ تاحال ان کو ہندوستان سے رقم اور آدمیوں کی امداد ملتی تھی مگر ان میں وہ سابقہ جذبہ اور ولولہ باقی نہیں رہا تھا جس کی بنا پر سید احمد شہید اور اسماعیل شہید سکھوں کے خلاف صف آراء ہوئے تھے۔ یہ لوگ اب اتنے بےکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے گردونواح کے لوگوں تک کو بھی اپنے حقیقی اغراض و مقاصد سے آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ہم خیال بنایا تھا۔ ایک دن ان لوگوں کے بارے میں میرے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ وہ انکے بارے میں نہایت پرامید تھے۔ میں نے کہا یہ لوگ اب بےکار ہیں۔ ہندوستان سے آمدہ رقوم کھا رہے ہیں۔ انکا عقیدہ تھا کہ تلوار ، نیزہ اور تیر کمان سے لڑنا چاہیئے کیونکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھیوں نے انہی ہتھیاروں سے جنگیں لڑی تھیں اور فتح پائی تھی اور یہ سنت کا طریقہ ہے۔وہ یہ حقیقت تسلیم نہیں کرتے کہ جس وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے تلوار، نیزہ اور تیر کمان سے جنگ کی تھی تو مدمقابل کفار کے پاس بھی یہی اسلحہ تھا۔ آج تو دنیا نے بہت ترقی کی ہے۔ توپ اور بندوق کا زمانہ ہے۔ تلوار ، نیزہ اور تیر کمان جدید اسلحہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر ہندوستان کے مسلمان ان حقائق سے بےخبر اور اس گروہ کی ذہنیت سے ناواقف تھے۔ عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے لیڈر اور علماء اس حقیقت سے ناواقف تھے۔ ہمیں تو اس گروہ کے تمام حالات معلوم تھے۔ مخفی صاحب ان کے حالات کی تحقیق کے لیئے خود بونیر گئے تھے اور غاروں میں انکے ساتھ کئی راتیں بسر کی تھیں۔ ہم نے دیوبند کے ساتھیوں کو یہ بات سمجھائی کہ نہ تو یہ مجاہدین کام کے لوگ ہیں اور نہ ہی یہ جگہ مرکز کے لیئے مناسب ہے۔"

اب تک کی مدلل گفتگو سے یہ بات یقینا واضح ہوچکی ہے کہ باچا خان جو اپنی جدوجہد کے اولین 16 سال میں پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے برصغیر کی آزادی کے خواہاں تھے نے کن وجوہات کی بنا پر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی تھی اور پشتونوں کو کیوں تشدد سے روکے رکھا تھا۔ 

اس حوالے سے باچا خان کے ناقدین دو اور آرا بھی رکھتے ۔
بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ باچا خان کبھی بھی قلبی طور پر عدم تشدد کے داعی نہیں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ باچا خان دو وجوہات کی بنا پر تشدد سے دستبردار ہوئے تھے۔ ایک تو مسلسل 16 سال برصغیر کی آزادی کے لیئے پرتشدد کاروائیوں، جنگی مرکز اور جہادیوں کو بھرتی کرنے میں ناکام ہوئے اور دوسری جانب باچا خان نے خدائی خدمتگار تحریک کو کانگرس سے جوڑنے کی جب کوشش کی تو انکے پاس مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارا تھا ہی نہیں۔ اپنی پشتون آبرو کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ گویا عدم تشدد کی پالیسی انکے دل کی آواز ہے۔ جن دنوں باچا خان تشدد کی پرچار کر رہے تھے اس وقت گاندھی جی عدم تشدد کے پیامبر تھے۔ باچا خان اگر چہ تشدد میں ناکام رہے تھے مگر عدم تشدد میں اتنے کامیاب ہوئے تھے کہ مہاتما گاندھی سے ایک دن خود یوں ذکر کیا جو انکی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 366 پر درج ہے۔
 
" گاندھی جی برلا کے گھر میں تھے۔ میں بھی وہاں گیا اور انکے ساتھ رہنے لگا۔ ایک دن عدم تشدد پر بات ہوئی تو میں نے کہا گاندھی جی آپ نے تو طویل عرصہ تک ہندوستانیوں کو عدم تشدد کا درس دیا اور میں نے حال ہی میں پختون بھائیوں کو یہ سبق دینا شروع کیا ہے۔ میرے پاس اتنے ذرائع اور کارکن بھی نہیں جتنے آپ کے پاس ہیں مگر 1942 کی جنگ کے دوران ہندوستان میں وسیع پیمانے پر تشدد ہوا لیکن صوبہ سرحد میں انگریزوں کے ظلم اور اشتعال کے باوجود پختونوں نے تشدد سے گریز کیا حالانکہ ہندوستانیوں کے مقابلہ میں پختونوں کے پاس تشدد کا سامان بھی زیادہ تھا۔ اس کے جواب میں گاندھی جی نے کہا عدم تشدد بزدلوں کا کام نہیں ہے یہ بہادروں کا کام ہے اور پختون ہندوستانیوں سے زیادہ بہادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تشدد کی راہ اختیار نہیں کی۔"

باچا خان کے ناقدین اپنے اس الزام کے بارے میں کہ باچا خان کی عدم تشدد کی پالیسی مہاتما گاندھی اور کانگرس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اختیار کی گئی تھی وہ مثال دیتے ہیں کہ جب جب گاندھی جی نے تشدد کا حکم دیا ہے تب تب باچا خان نے خدائی خدمتگاروں کو بھی پرتشدد کاروائیوں کے لیئے کہا ہے۔ خدائی خدمتگار کانگرس کا حصہ نہیں تھی بلکہ اپنی انفرادی حیثیت میں کانگرس سے الحاق میں تھے اور کانگرس انہیں اپنی پالیسی کے خلاف تشدد پر مجبور نہیں کرسکتی تھی۔ خدائی خدمتگار کانگرس کی تشدد کی پالیسی کو مسترد کرنے کے باوجود بھی کانگرس سے الحاق میں رہ سکتی تھی اگر باچا خان واقعی عدم تشدد کے پیروکار تھے اور تشدد کو پشتونوں کے لیئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔  باچا خان اپنی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 356 پر " ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک " کے عنوان سے مہاتما گاندھی کی تشدد کے فیصلے کے بارے میں یوں خیال آرائی فرماتے ہیں۔
 
" جب کرپس مشن ناکام ہوا تو ہندوستان کے لوگوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں میں یہ خیال راسخ ہوا کہ انگریز آسانی سے ہمیں کچھ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ان دنوں بمبئی میں ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا۔ کانگرس نے ہندوستان چھوڑ دو ( Quit India ) کی تجویز پاس کی۔ مہاتما گاندھی اور ورکنگ کمیٹی کے تمام ممبرز گرفتار ہوئے۔ ان کے گرفتار ہوتے ہی تمام ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف زبردست جدوجہد شروع ہو گئی۔ جب کانگرس کے ذمہ دار کارکن قید ہوگئے اور ان کے بعد کوئی ذمہ دار کارکن راہنمائی کے لیے میسر نہ رہے اور جب لوگ بھی انگریزوں سے مایوس ہوئے تو لوگوں نے عدم تشدد چھوڑ کر تشدد کی راہ اختیار کی اور انگریز بھی یہی چاہتا تھا۔ اس نے تشدد کا مقابلہ تشدد سے کیا کیونکہ اس کے پاس تشدد کا سامان بہت زیادہ تھا۔ انگریز تو صرف عدم تشدد کا مقابلہ کرنے سے عاری تھا۔ اس نے تشدد کی تحریک کو بہت جلد ختم کردیا اور لوگوں پر اتنے مظالم ڈھائے جو بیان سے باہر ہیں۔ دنیا کی وحشی سے وحشی قوم بھی اتنا ظلم نہیں کرسکتی جتنا کہ انگریزوں نے نہتے عوام پر کیا۔ مردوں کے علاوہ انہوں نے خواتین سے وہ سلوک روا رکھا کہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔گناہگار اور بےگناہ میں کوئی تمیز نہ تھی۔ انہوں نے دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنے وفادار ساتھیوں کی خواتین سے بھی شرمناک سلوک کیا۔ فوج اور پولیس کی کاروائی کے علاوہ انگریزوں نے دیہات پر ہوائی جہازوں سے مشین گنیں چلائیں اور بم گرائے۔ صوبہ سرحد میں اس بات پر غور کرنے اور لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ہمارا جرگہ اور خدائی خدمتگار اکھٹے ہوئے۔ کانگرس نے ہندوستان کے ہر صوبے میں ایک ڈکٹیٹر ( امیر ) مقرر کیا تھا۔ مجھے صوبہ سرحد کا ڈکٹیٹر ( امیر ) مقرر کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں مجھے حاجی فقیرا خان نے کہا تھا کہ آپ تو اس صوبے کے امیر ہیں ہمیں بلانے کی ضرورت نہیں آپ حکم کریں ہم اسکی تعمیل کرینگے۔ میں نے کہا بات تو ٹھیک ہے مگر میرا مزاج آمرانہ نہیں ہے۔ میں ہر ایک کام ساتھیوں کے مشورے سے کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دماغ کے مقابلے میں بہت سارے دماغوں کا فیصلہ بہتر ہوتا ہے۔"

کانگرس کے پرتشدد کاروائیوں کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا فیصلہ کرتے ہی باچا خان نے بھی اپنے ساتھیوں کا اجلاس طلب کیا اور پلک جھپکتے میں ہی پرتشدد کاروائیوں کا فیصلہ ہوا۔ نہ پھر عدم تشدد کی خوبیاں کسی کو یاد رہی اور نہ ہی نہتے پشتونوں کی انگریز جسے حکومت کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کے لیئے جنگی سازوسان کی عدم دستیابی کا واویلا۔ 

باچاخان اپنی خود نوشت سوانح عمری " میری زندگی اور جدوجہد " کے صفحہ نمبر 356 اور 357 پر یوں لکھتے ہیں۔
 
" اجلاس میں ہزارہ کے حاجی فقیرا خان نے کہا کہ ہمیں چاہیئے کہ بجلی اور ٹیلی فون کی تار کاٹ دیں اور پلوں کو اڑا دیں۔ میں نے کہا کہ اگر چہ یہ تشدد ہے مگر پھر بھی میں تم کو اس کی اجازت دیتا ہوں شرط یہ ہے کہ جو کارکن یہ کام کرے وہ خود تھانے جا کر اقبال جرم کر لیا کرے اور کہے کہ یہ میں نے اس لیئے کیا ہے کہ میں انگریزوں کی حکومت نہیں چاہتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کی وجہ سے بےگناہ عوام پر حکومت تشدد نہیں کر سکے گی۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو لوگوں کی جو ہمدردی ہمارے ساتھ ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ یہ تجویز منظور ہوگئی۔ میں نے دوسری تجویز یہ پیش کی کہ ہمیں ہر دیسی افسر کے پاس وفد بھیجنا چاہیئے کہ ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک شروع ہوچکی ہے اس لیئے تمہیں چاہیئے کہ تم نوکری سے استعفی دے دو اور یہ تجویز بھی منظور ہوگئی کہ انگریزوں کی عدالتوں پر دھاوا بول دیا جائے۔ انہیں کرسیوں سے اٹھایا جائے۔ عام لوگوں سے کہا جائے کہ تم اپنے جھگڑے خود اپنے گھروں میں نمٹاو اور انگریزوں کے پاس مت جاو کیونکہ یہ تو ہمارے ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ انگریز ہم پر اپنی حکومت بھی انہی نوکروں ( حکام ) کی مدد سے کر رہے ہیں مگر چونکہ ہمارے وفود کی کارکردگی کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے اس لیئے ہم نے عدالتوں پر دھاوا بولنے کا پروگرام شروع کر دیا۔"

کانگرس کے فیصلے کے مطابق عدم تشدد کی پالیسی ترک کر دی گئی اور صوبہ سرحد کے طول و عرض میں خونریز پرتشدد کاروائیوں کا آغاز ہوا.

( جاری ہے )

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow

Editor Hello its Today's Pakistan